"Beginning with the blessed name of the
glorious Lord, who knows the secrets of hearts; Tariq Aziz's greetings to the
eyes that see and hear! These words are still fresh in the minds of a
generation today. I remember the beginning of the program "Neelam Ghar"
which was also the first game show in the history of Pakistan.
1975 The "Neelam Ghar" which
started in 1971 and was later renamed as "Tariq Aziz Show" and
"Bazm-e-Tariq Aziz" is just one aspect of the personality of the late
Tariq Aziz as he is the host of this program. In addition to hosting the show,
he was also a voice actor, actor, politician, publisher and poet and whatever
he did, he made his mark.
Tariq Aziz, who opened a new chapter with his
God-given talents, was born on April 28, 1936, in the city of Jalandhar in the
undivided Punjab province of India under the British Crown. His father Mian
Abdul Aziz was one of the passionate activists of the "Pakistani"
movement and he started using "Pakistani" in his name from 1937.
With
the formation of Pakistan, Tariq Aziz migrated with his parents to Sahiwal and
received his early education there.
When Pakistan Television was started in 1964,
one of the founders of this channel was Tariq Aziz Sahib, where he also became
the first male announcer of PTV. However, the "Neelam Ghar" that
started in 1975 not only took his fame to new heights but also perpetuated it
to such an extent that "Neelam Ghar0" and "Tariq Aziz"
became each other's identities. Although the program spans nearly 40 years, it
has been closed for several years.
In the early years of Pakistan Television,
there was no facility to record programs. During the same period, the late
Tariq Aziz not only worked as an actor and compere in several PTV programs, but
also as a director in some live dramas.
Speaking of films, the late Tariq Aziz also
acted in films. His first film was Insaniat, released in 1967. His second
most memorable film "Salgira" was released in 1969 due to
timeless film songs like "Meri Zindagi Hai
Naghma, Meri Zindagi Tarana"
and "Lay ayi Phar Kahan Par, Kismat Humain Kahan Se".
It is still popular today. In this film, Mr. Tariq Aziz played the role of a
judge very well.
It is certainly not without interest that
former President Asif Ali Zardari also played the childhood role of a hero (Waheed Murad)
as a child actor in this film.
Apart from "Saligira", standard
films like "Katari", "Chirag Kahan Roshni Kahan", "Har
Gaya Insan" etc. are also to the credit of the late Tariq Aziz.
Very few people know that during his long
stay in Karachi in the 1980s, Mr. Tariq Aziz also published two magazines:
"Fifteenth Century" and "Children's Magazine"
which were very standard and very successful. Despite this, it could not last
for more than a few years due to the ignorance of Mr. Tariq Aziz in publishing
matters.
This was the time when PTV Karachi used to
have a "Neelam Ghar" which
was shot in "Rangoonwala Hall". The popularity of this program in
Karachi was so high that it was very difficult to get passes.
In each issue of "Children's
Magazine" he would conduct an exclusive interview of a child who had shown
outstanding performance in any field, whose picture would be published on the
cover. However, in the "fifteenth century" mostly clean stories and
installment novels were published.
The late Tariq Aziz was deeply saddened by
the failure, closure and financial loss of these two magazines and called the
experience of publishing a magazine in the circle of friends the "worst
mistake" of his life.
While staying in Karachi, Mr. Tariq Aziz got
married. However, all that is known about their domestic and married life is
that they were childless.
He has received several awards for services
in the fine arts, including the 1992 Presidential Medal of Excellence from the
Government of Pakistan.
He moved to Lahore again in the early 1990s
and stayed there until his last days.
The late Tariq Aziz also had a clear
political thinking. In an interview, he said that when Zulfiqar Ali Bhutto
founded the Pakistan People's Party in 1969 and chanted the slogan "bread,
cloth and house", he was impressed. But in 1989, when Mohtarma Benazir
Bhutto was elected Prime Minister of Pakistan for the first time, Mr. Tariq
Aziz's thinking had changed and he had become more and more in favor of the
PML-N.
While Mian Muhammad Nawaz Sharif was gaining
political proximity to the PML-N, the time came in 1997 when the late Tariq Aziz
contested the National Assembly elections from Lahore on the ticket of the same
political party and defeated his rival Imran Khan Niazi.
But a few months later, Mr. Tariq Aziz's
reputation was tarnished when, at the behest of the, then Prime Minister Nawaz
Sharif, his name was mentioned in the list of MPs who broke into the premises
of the Supreme Court, Islamabad. And that was confirmed by CCTV footage.
He has also been active on Twitter for the
past few years and his Twitter handle was @TariqAzizPTV. Just a day before his
death, he wrote in his tweet from the hospital: "It seems time has
stopped, life has stopped. I have been lying in bed for many days thinking
about the great blessing of free movement. I don't know when the old times will
return, there is no hope yet. "
Note: Tariq Aziz's Twitter
account has been deleted some time ago.
طارق عزیز: ایک عہد ساز شخصیت، ایک نظر میں
’’ابتداء ہے ربِ جلیل کے
بابرکت نام سے، جو دلوں کے بھید جانتا ہے… دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز
کا سلام!‘‘ یہ الفاظ آج بھی ایک نسل کے ذہنوں میں تر و تازہ ہیں، جنہیں سنتے ہی
طارق عزیز کے پروگرام ’’نیلام گھر‘‘ کی ابتداء یاد آجاتی ہے جو پاکستان کی تاریخ
میں سب سے پہلا گیم شو بھی تھا۔
1975
میں
شروع ہونے والا ’’نیلام گھر‘‘ جسے بعد ازاں ’’طارق عزیز شو‘‘ اور ’’بزمِ طارق
عزیز‘‘ کے نام بھی دیئے گئے، طارق عزیز مرحوم کی شخصیت کا صرف ایک پہلو ہے کیونکہ
وہ اس پروگرام کے میزبان ہونے کے علاوہ صداکار، اداکار، سیاست دان، ناشر اور شاعر
تک رہ چکے تھے اور جو کام بھی کیا، اس پر اپنی چھاپ لگا دی۔
اپنی خدا داد صلاحیتوں کے اظہار سے ایک نیا باب
رقم کرنے والے طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہندوستان کے غیر
منقسم صوبہ پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میاں عبدالعزیز
’’پاکستانی‘‘ تحریکِ پاکستان کے پُرجوش کارکنان میں سے تھے اور انہوں نے 1937 ہی
سے اپنے نام کے ساتھ ’’پاکستانی‘‘ لگانا شروع کردیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی طارق عزیز اپنے والدین
کے ہمراہ ہجرت کرکے ساہیوال آگئے اور ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کی۔
بعد ازاں 1950 کی دہائی میں نوجوان طارق عزیز نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا، جہاں
انہیں ریڈیو سے خبریں پڑھنے کا خاصا تجربہ حاصل ہوا۔ ریڈیو کے اسی تجربے سے جناب طارق عزیز کو جس لب و لہجے
کی عادت ہوئی، وہ مرتے دم تک ان کی شخصیت کا خاصّہ رہا۔
انہیں ریڈیو سے خبریں پڑھنے کا خاصا تجربہ حاصل ہوا۔ ریڈیو کے اسی تجربے سے جناب طارق عزیز کو جس لب و لہجے
کی عادت ہوئی، وہ مرتے دم تک ان کی شخصیت کا خاصّہ رہا۔
اُنیس سو چونسٹھ میں(1964 جب پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو اس چینل کی بنیاد رکھنے والوں میں ایک نام طارق عزیز صاحب کا بھی تھا، جہاں انہوں نے پی ٹی وی کے پہلے مرد اناؤنسر کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ البتہ 1975 میں شروع ہونے والے ’’نیلام گھر‘‘ نے ان کی شہرت کو نہ صرف بلندیوں پر پہنچایا بلکہ ایسا دوام بخشا کہ ’’نیلام گھر‘‘ اور ’’طارق عزیز‘‘ ایک دوسرے کی شناخت بن گئے۔ اگرچہ اس پروگرام کی تاریخ تقریباً چالیس سال پر محیط ہے لیکن درمیان میں یہ کئی سال بند بھی رہا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے ابتدائی برسوں میں پروگرام
ریکارڈ کرنے کی سہولت موجود نہ تھی۔ اسی زمانے میں طارق عزیز مرحوم نے نہ صرف پی
ٹی وی کے کئی پروگراموں میں اداکار اور کمپیئر کی حیثیت سے کام کیا بلکہ براہِ
راست نشر ہونے والے کچھ ڈراموں میں ہدایت کار کے فرائض بھی انجام دیئے۔
فلموں کے حوالے سے بات کی جائے تو مرحوم طارق
عزیز نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت تھی جو 1967 میں
ریلیز ہوئی۔ ان کی دوسری یادگار ترین فلم ’’سالگرہ‘‘ 1969 میں ریلیز ہوئی جو
’’میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ‘‘ اور ’’لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں
کہاں سے‘‘ جیسے لازوال فلمی نغموں کی وجہ سے آج بھی مشہور ہے۔ اس فلم میں جناب طارق
عزیز نے جج کا کردار بڑی خوبی سے ادا کیا تھا۔
یہ بات یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں کہ سابق صدر
آصف علی زرداری نے بھی اس فلم میں ایک چائلڈ ایکٹر کی حیثیت سے ہیرو (وحید مراد)
کے بچپن کا کردار ادا کیا تھا۔
’’سالگرہ‘‘ کے علاوہ قسم اس وقت کی،
کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان وغیرہ جیسی معیاری فلمیں بھی مرحوم
طارق عزیز کے کریڈٹ پر ہیں۔
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ 1980 کے عشرے
میں کراچی میں اپنے طویل قیام کے دوران جناب طارق عزیز نے دو رسالے بھی شائع کیے
تھے: ’’پندرہویں صدی‘‘ اور ’’بچوں کا رسالہ‘‘ جو بہت معیاری اور خاصے کامیاب ہونے
کے باوجود بھی چند سال سے زیادہ نہ چل سکے، جس کی وجہ اشاعت (پبلشنگ) کے امور سے
جناب طارق عزیز کی عدم واقفیت تھی۔
یہ زمانہ وہ تھا کہ جب پی ٹی وی کراچی سے
’’نیلام گھر‘‘ ہوا کرتا تھا جس کی شوٹنگ ’’رنگون والا ہال‘‘ میں ہوتی تھی۔ کراچی
میں بھی اس پروگرام کی شہرت اس قدر زیادہ تھی کہ اس کے پاسز بہت ہی مشکل سے ملتے
تھے۔
’’بچوں کا رسالہ‘‘ کے ہر شمارے میں وہ
کسی بھی شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کسی ایک بچے کا خصوصی انٹرویو خود
کرتے جس کی تصویر سرورق پر شائع کی جاتی۔ البتہ ’’پندرہویں صدی‘‘ میں زیادہ تر صاف
ستھری کہانیاں اور قسط وار ناول شائع کیے جاتے تھے۔
ان دونوں جرائد کی ناکامی، بندش اور مالی نقصان
پر طارق عزیز مرحوم بہت دل برداشتہ ہوئے اور حلقہ احباب میں رسالہ شائع کرنے کے
تجربے کو اپنی زندگی کی ’’بدترین غلطی‘‘ بھی قرار دیا۔
کراچی میں قیام کے دوران ہی جناب طارق عزیز نے
شادی کرلی۔ تاہم ان کی گھریلو اور شادی شدہ زندگی کے بارے میں صرف اتنا ہی معلوم
ہوسکا ہے کہ وہ بے اولاد رہے تھے۔
فنونِ لطیفہ میں خدمات پر انہیں کئی ایوارڈ مل
چکے ہیں جن میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے 1992 میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی
شامل ہے۔
عشرہ 1990 کی ابتداء میں وہ دوبارہ لاہور چلے
گئے اور اپنے آخری وقت تک وہیں مقیم رہے۔
مرحوم طارق عزیز ایک واضح سیاسی سوچ بھی رکھتے
تھے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ جب 1969 میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے
پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی اور ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگایا تو وہ اس
سے بہت متاثر ہوئے۔ لیکن 1989 میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار پاکستان کی
وزیراعظم منتخب ہوئیں تو جناب طارق عزیز کی سوچ بھی تبدیل ہو کر مسلم لیگ (ن) کے
حق میں خاصی حد تک استوار ہوچکی تھی۔
میاں محمد نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) سے سیاسی
قربت اختیار کرتے کرتے 1997 میں وہ وقت بھی آیا جب طارق عزیز مرحوم نے اسی سیاسی
جماعت کے ٹکٹ پر لاہور سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور اپنے مدِمقابل عمران خان
نیازی کو شکست دی۔
لیکن چند ماہ بعد جناب طارق عزیز کی شہرت اس وقت
داغ دار بھی ہوئی جب اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی ایما پر سپریم کورٹ، اسلام
آباد کے احاطے میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے والے ارکانِ پارلیمنٹ میں ان کا نام
بھی لیا گیا؛ اور جس کی تصدیق سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی ہوئی۔
اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ہی جناب طارق عزیز نے
سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
پچھلے چند سال سے وہ ٹوئٹر پر بھی سرگرم تھے اور
ان کا ٹوئٹر ہینڈل
@TariqAzizPTV تھا۔ اپنے انتقال سے صرف ایک دن پہلے
انہوں نے اسپتال سے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’’یوں لگتا ہے وقت تھم گیا ہے، رواں دواں
زندگی رُک گئی ہے۔ کئی دنوں سے بستر پر لیٹے لیٹے سوچ رہا ہوں کہ آزادانہ نقل و
حرکت بھی مالک کی کتنی بڑی نعمت تھی۔ نجانے پرانا وقت کب لوٹ کے آتا ہے، ابھی تو
کوئی امید نظر نہیں آرہی۔‘‘
نوٹ: طارق عزیز کا ٹوئٹر اکاؤنٹ کچھ دیر پہلے ہی
ڈیلیٹ کردیا گیا ہے۔
0 comments:
Post a Comment
if you have any questions, Plz let me know @ crossroads919@gmail.com