Daniel Lee, the killer of three people in the
United States, was executed 17 years later by lethal injection, the last time a
convict was sentenced in 2003.
According to the international news agency,
the accused Daniel Lee had killed three people on the basis of racial hatred
and a plan to establish a white state only. He was convicted and sentenced to
death in 1999. But since then, the death penalty has been stalled in the United
States. However, the decision of the Court of Appeals paved the way for the
first time at the federal level to carry out the death penalty.
The sentence was carried out on Tuesday in
the federal prison of Terry Hout in the US state of Indiana. At execution,
Daniel Lee said he had done many wrong things in his life, but he was not a
murderer. According to authorities, Lee's last words were, "You are
killing an innocent man."
Daniel Lee, 47, has been sentenced to death
by an injection of poisonous drugs following an appeals court ruling, and
President Donald Trump's administration has ordered the execution of three more
people in the coming months. ۔
Contrary to previous periods, the Trump
administration's position this time around is that the reinstatement of the
death penalty is in the interest of victims of serious crimes and that the
death penalty has become indispensable to eradicate serious crimes.
It should be noted that the last time a
convict was sentenced to death in the United States was 17 years ago, but after
that the execution was stopped. Experts say that after the execution of Daniel
Lee's sentence, the debate in this regard will once again become central and it
will also become an important topic in the US elections.
امريکا میں 3 افراد کے قاتل ڈینیل لی کو زہریلا انجیکشن لگا کر 17
برس بعد سزائے موت پر عملدرآمد کردیا گیا جب کہ اس سے قبل آخر مرتبہ 2003
میں کسی مجرم کو یہ سزا دی گئی تھی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق نسلی منافرت کو
بنیاد بنا کر اور صرف سفید فاموں کی ریاست کے قیام کے ایک منصوبے کے تحت
ملزم ڈینیل لی نے تین افراد کو قتل کردیا تھا۔ اسےجرم ثابت ہونے پر 1999 میں سزائے
موت سنائی گئی تھی۔ لیکن اس کے بعد سے امریکا میں سزائے موت پر عمل درآمد
تعطل کا شکار رہی تاہم اپيلز کورٹ کے فيصلے کے تناظر میں وفاقی سطح پر پہلی مرتبہ
سزائے موت کے فيصلے پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہوئی۔
منگل کو امریکی ریاست انڈیانا میں ٹیری ہاؤٹ کے
وفاقی جیل خانے میں سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزا پر عمل درآمد کے وقت ڈینیل لی
کا کہنا تھا کہ اس نے زندگی میں بہت سے غلط کام کیے ہیں لیکن وہ قاتل نہیں ہے۔
حکام کے مطابق لی کے آخری الفاظ تھے ’تم ایک بے گناہ شخص کو قتل کررہے ہو۔‘‘
اپیلز کورٹ کے فیصلے کے بعد 47 سالہ مجرم ڈينيل
لی کو آج زہریلا انجيکشن لگا کرسزا پر عمل درآمد کردیا گیا ہے اور اس کے
علاوہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظاميہ نے آئندہ مہينوں ميں مزید تين افراد
کی سزائے موت پر عملدرآمد کے احکامات جاری کر رکھے ہيں۔
سابقہ ادوار کے برخلاف ٹرمپ انتظاميہ کا اس بار
موقف ہے کہ سزائے موت پر عمل در آمد کی بحالی سنگين جرائم کے متاثرين کے مفاد ميں
ہے اور سنگین جرائم کی بیخ کنی کے لیے سزائے موت عمل درآمد ناگزیر ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا میں آخری بار کسی مجرم کو
سزائے موت 17 سال قبل دی گئی تھی تاہم اس کے بعد سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا
گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینیل لی کی سزا پر عمل درآمد کے بعد اس حوالےسے
ہونے والی بحث ایک مرتبہ پھر مرکزی حیثیت حاصل کرلے گی اور امریکی انتخابات میں
بھی یہ اہم موضوع بن کر سامنے آئے گا۔
0 comments:
Post a Comment
if you have any questions, Plz let me know @ crossroads919@gmail.com